غلام مرتضٰی شاہ باالمعروف “جی ایم سید” نثار نندواني
غلام مرتضٰی شاہ باالمعروف “جی ایم سید” جو ہر دم سچل سرمست کی اس سطر
“سچو عشق بڈھا نہ تھیوے بانہویں چٹڑی تھی ونجے داڑھی”، کی جیتی جاگتی تصویر ہو کر رہے تھے ۔
پاکستان میں شاید وہ واحد بوڑھا شخص تھا جس کے عاشق صادق زیادہ تر نوجوان طبقہ تھا
16 جنوری کو سندھ میں کئی سندھی قوم پرست اور نوجوان سندھو دریا کے اس پار ایک چھوٹے سے شہر سن کی طرف جائیں گے ، جہاں جی ایم سید ایک کھلی کتاب کی شکل کی میں سنگِ مرر کی قبر کے نیچے دفن ہیں۔
17 جنوری 1904 کو سن میں پیدا ہونے والے جی ایم سید جب 25 اپریل 1995 کو سپردِ خاک ہوئے تو ان کے جنازے کے ساتھ قرآن ، گیتا ، انجیل ، توریت اور شاہ جو رسالو بھی ساتھ سفر کرتے رہے تھے۔
جی ایم سید شاید پاکستان میں وہ پہلے سیاستدان تھے جنہوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے کئی برس قبل ہی مذہبی انتہا پسندی کے ملک اور خطے میں خطرات سے متنبہ کر دیا تھا۔
جی ایم سید وہ پہلے سیاستدان بھی تھے جنہوں نے سرد جنگ کے خاتمے پر امنِ عالم کے لیے اقومِ متحدہ کی از سر نو تشکیل کی بات کی تھی۔ یہ بات انہوں نے جنوری 1992 میں نشتر پارک کراچی میں اپنی سالگرہ کے جلسے کے دوران کی تھی جسکے فوراً بعد انہیں گرفتار کر کے گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ نواز شریف کے دنوں میں شروع ہونی والی ان کی نظر بندی بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران مئی 1995 میں ان کی وفات تک برقرار رہی۔
سائیں جی ایم سید شاید غفار خان کے بعد اس ملک کے سب سے سینیئر “غدار” تھے۔ سائیں جی ایم سید پاکستانی حکومتوں کے ہر ایک دور میں پاکستان کو ختم کرنے کے الزمات میں قید و نظر بند رہے لیکن ان کی 28 سالہ قید و نظربندی کے دوران کبھی بھی انہیں کسی بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ ایک ایسا الزام جسے وہ بخوشی قبول کرتے تھے۔ وہ ہر بار کہتے تھے مجھے عدالت میں پیش کیا جائے مگر ارباب اختیار کو یہ ڈر تھا کہ کہیں یہ بوڑھا غدار ہمارے راز نہ کھول دے اس لئے 28 سال تک اسے کسی بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ۔
بینظیر بھٹو کی دورِ حکومت میں سید کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلانے والے انسدادِ دہشتگردی کے ججز نجی طور پر پیغامات بھیجتے رہے کہ وہ برائے مہربانی ان کی عدالت میں پیش نہ ہوں کیونکہ وہ انکے اعترافِ جرم کی صورت میں ان کو سزا دینے کے گنہگار نہیں بن سکتے۔ کراچی میں اپنی رہائش گاہ حیدر منزل پر تو سماعت کے دن وہ تیار ہو کر عدالت جانے کے لیے تیار ہو کر بیٹھتے لیکن کبھی بھی پولیس ان کو لینے کے لیے نہیں پہنچی۔
وہ اپنے خلاف الزامات پر فارسی کا مشہور شعر پڑھا کرتے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ
“بڑی بھیڑ لگی ہے۔ وہ مجھے قتل کرنے کے لیے لیکر جار رہے ہیں،
میرے محبوب تو بھی چھت پر آکر دیکھ کہ کیا نظارہ لگا ہے۔”
جی ایم سید بنیادی طور پر ایک صوفی تھے۔ وہ سندھ کے عظیم صوفی مخدوم بلاول کے مرید اور ایک بزرگ حیدر شاہ سنائی کے سجادہ نشین بھی تھے۔ جی ایم سید کی کم عمری میں ہی ان کے والد کو قتل کر دیا گیا تھا اگرچہ انکی تمام تعلیم گھر کی عورتوں کے پاس یا گاؤں کے مکتب میں اور خانگی طور پر مقامی ٹیچروں سے رہی تھی۔ وہ حاضر جواب، بلا کی حس مزاح کے مالک، منجھے ہوئے سیاستدان اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔
ان کی کتابوں میں سے ایک
“جئيں ڈٹھو آہ موں” (جیسا میں نے دیکھا) مذاہب عالم اور ان کی تاریخ پر کتاب ہے جو انہوں نے 1960 کی دہائی میں لکھی جبکہ انکی ایک اور کتاب “سندھو دیش چھو چھا لائے” (سندھو دیش کیوں اور کس لیے) انکی ممنوعہ کتابوں میں شامل ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ جی ایم سید تو شاید مسلمان ہی نہ تھے جبکہ وہ اپنے گاؤں کی مسجد میں بہت عرصے تک نمازوں کی امامت کرتے اور جمعے کے خطبات بھی دیتے رہے۔
یہی وہ سوچ ہے جسے بنانے میں حکومتوں کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ایک خطبے کو سن کر 1976 میں گلستان خان نامی ایک شخص اپنے نیفے میں خجنر چپھائے شیخ ایاز اور جی ایم سید کو مارنے گیا تھا کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوچکے ہیں اور “واجب القتل ہیں”۔ لیکن جب اس نے سید کو ساری رات کی مجلس کے بعد اشراق و تہجد پڑھتے دیکھا تو اس نے خنجر سامنے میز پر رکھا اور اعتراف کیا کہ وہ کس طرح جنت کمانے نکلا تھا ۔ سید نے بعد میں اس شخص کے خلاف عدالت میں گواہی دینے سے انکار کر دیا۔
انکے نزدیک سیاست دو قسموں کے تھی۔ ایک عملی یعنی انتخاب و اقتدار کی سیاست اور دوسری آدرشی یا نظریات و اصولوں کی سیاست۔
نظریات ان کے جیسے بھی تھے اپنے انہی آدرشوں اور اصولوں کے سیاستدان تھے۔ وہ پاکستان میں واحد سیاستدان تھے جو علی الاعلان پاکستان کو توڑ کر اسکی جگہ سندہ کو “سندھو دیش” بنانے کی بات کرتے تھے۔
وہ اپنے ملنے والوں سے کہتے کہ آؤ ملکر دعا کریں کہ پاکستان ٹوٹ جائے۔ یہ وہی جی ایم سید تھے جو پاکستان کے بانی کے قتل کی افواہیں سن کر کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگے تھے۔ محمد علی جناح پر قاتلانہ حملے کے منصوبے میں ایک سندھی کے پکڑے جانے پر انہوں نےکہا “حیرت اس بات کی ہے کہ سندھی بھی انتہا پسند ہو سکتے ہیں “
پاکستان کی مخالفت سب سے پہلے حر تحریک کے امام پیر صبغت اللہ شاہ راشدی نے کی اور جی ایم سید سے کہا کہا کہ آؤ سندھ کی بات کریں۔
پیر پگارا صاحب نے واشگاف الفاظ میں کہا
”بھول کر بھی مسلم لیگ میں شامل ہوکر زیرک لیڈروں کی باتوں میں مت آنا ، بلکہ آؤ آزاد سندھ کی بات کریں”
مگر سائیں نے پاکستان کی تخلیق کا پہلا آفیشل اعلان کیا اور اس وقت سندھ اسمبلی میں پاکستان بننے کے لیے پہلی قرارداد 3 مارچ 1943 کو پیش کی۔ اس وقت اسے حر تحریک کے امام پیر صبغت اللہ شاہ کے لاکھوں حروں کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا” لیکن جی ایم سید نے ان کی ایک بھی نہ سنی ، لابیاں بنائی ، خوش امیدی کی انتہا پر پہنچ کر ، مسلم لیگ کے لیے اپنی کشتیاں جلا دیں۔
سندھ کے قوم پرست رہنما جی ایم سید کا شمار پاکستان کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے ہی سندھ اسمبلی میں قیام پاکستان کی قرارداد پیش کی تھی جس نے آگے چل کے اس مطالبے کو قانونی اور آئینی جواز فراہم کیا تھا۔
آج بھی سندھ کے نوجوان اس مرشد کے نظریات پر بات کرتے ہیں ، آج بھی وہ سن کے اس سنگ مرمر کی قبر پر جا کر “سندھو دیش” کے نعرے لگاتے ہیں اور انہی نوجوانوں کے آباؤ اجداد وڈیرہ شاہی کو کورنش بجا لاتے ہیں ۔
اپنی زندگی میں اپنے جنم دن کے موقع پر انہوں نے ایک پیغام میں کہا کہ
“قوموں کی قسمتوں کے فیصلے
جنگوں میں نہیں بلکہ
تعلیمی درسگاہوں میں ہوتے ہیں”